پاکستان

علاقائی نیوز

بین الاقوامی

کالم

سپورٹس


تحریر : مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
2005 ؁ء میں ایک قیامت اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ جس نے بے خبر کوبھی خبر دارکردیا،زمین کے نچلے حصے کواوپراوراوپر والے کونیچے کر دیا،پہاڑوں کوذرات میں تبدیل کر دیا،محل والوں کوخیموں میں رہنے پہ مجبور کردیااپنے ہاتھوں سے اوراپنے مال سے بنائے ہوئے مکانات میں جانے سے ڈر لگتاتھا،میدانوں اور کھیتوں سے پیاراوربازاروں دوکانوں کوخیرآباد کہہ چکے تھے ۔۔بڑی بڑی کوٹھیاں زمین بوس ہوچکی تھیں ،گاڑیاں جب پہ بیٹھ کر سفروں کی اوڑان میں اڑاکرتے تھے وہ بھی من ومٹی کے نیچے دب گئیں ،ہر طرف سے چیخ وپکار تھی ،نفانفسی کاعالم تھا،مکانات اپنے مکینوں کولے کر گم ہوچکے تھے ،کوئی اپنے پیاروں کوتلاش کرتاتھاتوکوئی اپنی جان کی فکر میں لگاہواتھا۔۔۔اللہ پاک نے ان لوگوں کے دلوں کونرم کر دیاجوسخت دل تھاان کویک جان کر دیاجوعلاقائی اورقبیلوں کی لڑائی لڑتے تھے ۔۔۔۔اس وقت سارے پاکستان کی عوام ایک نظر نہیں اختلافات بھلاکر بے سروسامان لوگوں کی مدد کے لیے نکل پڑے جس سے جوہوسکتاتھااس نے اس سے بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔۔۔تمام پاکستانیوں کی رخ آفت زدہ علاقوں کی طرف ہوگیا۔۔۔۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے چند دوست چنیوٹ پنجاب سے آئے تھے اورساتھ قیمتی اشیاء جوضرورت کی تھیں لائے اور انہیں علم ہواکہ اس وقت ان علاقوں میں پانی کی شدیدقلت ہے وہ اپنے ساتھ بوتلوں میں کنویں کاتازہ پانی لے کر آئے اتناایثار ومحبت میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھاآج وہی لوگ بے سروسامانی کی حالت میں ہیں جاہ پناہ کی تلاش میں نکل پڑے ہیں سب کچھ پانی بہاکے لے گیاان پہ بھی قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی اب ہماراامتحان ہے کہ ہم ان بھائیوں کے لیے کیاکرتے ہیں ۔۔۔۔فصلیں تباہ مکانات تباہ زمین کاپتہ نہیں کہ کون سی اپنی ہے ؟اللہ ہی بے سہاروں کاسہاراہے ،
اس وقت ہمارے بھائی پریشانی اورغم میں مبتلا ہیں ایک وقت ایسا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے تھے ہمارے غم میں وہ شریک تھے آج ہمیں بھی چاہیے ہم بھی اپنی استطاعت کے مطابق ان کے کام آئیں وہ معصوم بچیاں بھی آج اس سیلاب کے ریلے میں بہہ چکی ہیں ان کے مکانات بھی صفحہ ہستی سے مٹ چکے جنہوں نے اپنی چوڑیاں اوردیگر زیورات بیچ کر اپنی جمع پونجی 2005 ؁ء کے متاثرین زلزلہ کے سامنے رکھ دی ،اس وقت تک وہ بچیاں اوربچے چین سے نہیں بیٹھے تھے جس وقت تک متاثرین کواپنے گھروں میں جاتے ہوئے چین سے نہیں دیکھایقینامحب وطن ہوتے ہیں وہ لوگ جومشکل کی گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کاخیال رکھتے ہیں یہی مسلمان کی شان اورپہچان ہے ۔
ایک بوڑھی عورت کو اللہ سے بہت پیار تھاوہ ہر وقت اسے یاد کرتی راتوں کواُٹھ کر تہجد پڑھتی ۔اسے اس دُنیا کی چیزوں سے محبت اور سروکار نہیں تھاوہ ہمیشہ خداکی طلب میں رہتی۔یہاں تک کہ اس کے ذہن میں خداسے ملنے کا خیال آیا اور یہ خیال وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتاچلاگیا۔ایک رات وہ خدا کے دربار میں سربسجود ہوئی اور ان الفاظ میں اپنی خواہش اللہ پاک کے حضور پیش کی ۔۔۔اے میرے خدا!توجانتاہے میں تجھ سے کتناپیار کرتی ہوں۔توبہت ہی مہربان ہے اور اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے ۔اے میرے سوہنے اللہ ،میرے پیارے اللہ ،میرے کریم اللہ،میرے رحیم اللہ ،میرے غفور اللہ اے مالک الملک میری بڑی خواہش ہے کہ میں تیری دعوت کروں اور تومیرے ساتھ آکر کھاناکھائے،،،،،،اسے خواب میں احساس ہواجیسے خواب میں اسے اللہ پاک کہ رہے ہوں،کہ اللہ پاک شام کوتیرے پاس دعوت کھانے ضرور آئے گا۔
وہ خوشی سے سرشار جب صبح کوبیدار ہوئی تو اس نے گھر میں جمع پونجی کاحساب لگایا اس کے پاس زیادہ رقم نہیں تھی،کچھ رقم وہ اپنے پرس میں ڈال کر بازار گئی ۔چاول اور گھی وغیرہ خرید کر گھرپہنچی اور لذیذکھانے تیار کرناشروع کردیے۔عصر کے وقت تک وہ تمام کھانے میز پر سجاچکی تھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسے انتظار تھاکہ اللہ پاک کسی بھی وقت اس کے گھر قدم رنجہ فرماسکتے ہیں۔تھوڑی دیرمیں اس کے گھر کے دروازے پہ دستک ہوئی تو وہ دروازے کی طرف تیزی سے لپکی اور جیسے ہی دروازہ کھولا،اس نے ایک فقیر کودیکھا جوکہ رہاتھا،اس نے کئی دنوں سے کھانانہیں کھایا۔خداترس ہونے کے ناطے بوڑھی عورت اس فقیر کوخالی ہاتھ نہ لوٹاسکی اس نے اسے اندر آنے کی اجازت دی اور میزپرلابٹھایا۔فقیر نے زندگی بھر ایسالذیذکھانانہ کھایاتھاوہ کھانے پر ٹوٹ پڑااور جوکچھ سامنے پڑاتھاچٹ کر گیا۔
بوڑھی عورت کوذراسی پریشانی ہوئی کہ اب کیا کرے۔اس نے اپنے پرس کاجائزہ لیااور بچی کچھی رقم لے کر بازار چلی گئی ۔چند چیزیں خرید کر گھر لائی اور پھر سے اللہ پاک کے لیے کھاناتیار کیااور میزپرسجادیا تھوڑی دیر گزری دروازے پر پھردستک ہوئی ،بُڑھیانے پھر دروازہ کھولااوردروازے پر کالی بھجنگ عورت کوباہر کھڑاپایا اس کے منہ میں دانت نہ تھے اوردونوں کانوں سے بہری تھی وہ اونچی اور سخت آواز میں کہ رہی تھی کہ تم اگر اللہ پریقین رکھتی ہوتومجھے واپس نہ بھیجنا۔۔۔مجھے سخت بھوک لگی ہے۔
اس کے باوجود کے بوڑھی کے پاس رقم نہ بچی تھی ۔وہ انکار نہ کر سکی اس نے فقیرنی کوکھانے کی میزپرلابیٹھایا۔اس نے کھاپی کر شکر اداکیااورچلتی بنی،سورج غروب ہوچکاتھاشام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔عورت سوچ میں پڑھ گئی کہ اب کیاکرے ؟اگر اللہ پاک اس کے گھر آتاہے تووہ اس کی خاطرمدارت کیسے کرے گی۔اس کے پاس جوتھوڑے پیسے تھے وہ ختم ہوچکے تھے ۔اس نے گھر کوگہنگالہ توپراناایک چاندی کاکٹوراملاجواس کی نانی کے زمانے کاتھاوہ اس کے بزرگوں کی یادگار تھی اس نے وہ کٹورالیابازار میں جاکربیچ دیااور وہاں سے اشیاء خوردونوش خریدی اورکھانے کی میزپرسجاکر اللہ پاک کاانتظار کرنے بیٹھ گئی۔
عشاء کاوقت ہوچکاتھا۔انتظار لمباہوتاچلاگیا،رات گہری سناٹوں میں اترتی جارہی تھی ۔آخر کار دروازے پردستک ہوئی اس کے دل کی تار تیزی سے بجنے لگی،اسے یہ محسوس ہواکہ وہ لمحہ آخر آن پہنچا جس کا وہ انتطار کررہی تھی۔چہرے پر خوشی اوراداسی کے احساسات سجائے دروازے کی طرف لپکی۔جیسے ہی اس نے دروازہ کھولااس نے دیکھاکہ ایک ملنگ دروازے پہ کھڑاہے اورکھانے کاسوال کررہاہے عورت نے مشکل سے اپنے آنسوروکے اورسوچ میں پڑھ گئی وہ کیاکرے لیکن وہ خداترس اورمہمان نوازعورت تھی۔اس نے زندگی میں کبھی انکار نہیں کیاتھا،اس نے ملنگ کوگھر میںآجانے کے لیے کہا۔ملنگ نے آکر کے جی بھر کے کھاناکھایاعورت کودعائیں دیں اور رخصت ہوگیا۔ملنگ کے جانے کے بعد عورت پھوٹ پھوٹ کررونے لگی اور کہنے لگی خدایابازار بندہوچکاہے جمع پونجی بھی ختم ہوگئی کچھ نہیں بچا وہ خداکے حضور سجدہ ریز ہوئی گِرگِڑاکرآہ وزاری کرنے لگی ۔۔۔اے میرے مالک آخرکیاوجہ ہے آپ وعدے کے باوجودنہیںآئے اسی کیفیت میں اسے مصلے پہ نیندآگئی۔اس نے خواب میں دیکھااللہ پاک اسے پیار سے کہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اے میری بندی میں تیری مہمان نوازی سے اتنالطف اندوز ہواہوں کہ تین بار تیرے گھر آچکاہوں۔۔۔۔
ہم مسلمانوں کوبھی اللہ کے پاک نبی ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے کہ زندگی میں کبھی بھی اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف وپریشانی کومت بھولنابلکہ اس کی مشکل میں آسانیاں پیداکرنا یہی تیری مسلمان ہونے کی دلیل ہے آئیے آپ کورسول اللہ ﷺ کے دربار میں لے چلتے ہیں 
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس مسلمان نے اپنے بے لباس مسلمان کولباس پہنایااللہ اسے جنت کاسبز لباس پہنائے گا،جس نے اپنے بھوکے مسلمان بھائی کوکھاناکھلایااللہ اسے جنت کے میوے کھلائے گاجس نے اپنے پیاسے مسلمان بھائی کوپانی پلایااللہ اس کوجنت کی مہر لگی پاکیزہ شراب سے سیراب کرے گا۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے کسی امتی کی حاجت پوری کی اوراس کاارادہ محض اسے خوش کرناہو(یعنی اپنی کوئی ذاتی غرض ،ریا،شہرت نہ ہو)تواس نے مجھے خوش کیا(جان لو)جس نے مجھے خوش کیااس نے اللہ کوخوش کیاتوجس نے اللہ کوخوش کر دیاتووہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا
اب ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آقاکوبھی خوش کرے اورمولاکوبھی ۔۔۔اگر وہ خوش ہیں توساراجہاں خوش ہے اگر وہ ناراض ہیں تویقیناساراجہاں ناراض ہے 

About Asian News Feed

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
«
Next
Newer Post
»
Previous
Older Post

No comments:

Post a Comment


Top